ملی جب سے یہ کیف و بے خودی ہے
انا میری فنا ہونے لگی ہے
بِنا اُن کے جو اب تک کٹ رہی ہے
بھلا کس کام کی وہ زندگی ہے
مبارک حسرتِ نایافت کا غم
مجھے حاصل تو بس بے حاصلی ہے
فقط ہے دعویٰئ اُلفت زباں تک
فقط کہنے کو اپنی عاشقی ہے
میں فیصلؔ کیوں بنوں دنیا کا طالب
مجھے مطلوب اُن کی بندگی ہے