یہ تو اب حقیقت سی ہو گئی ہے
تم سے ملنے کی عادت سی ہوگئی ہے
صحراؤں کی ریت تپنے لگی ہے
دھوپ کو جیسے جلن سی ہو گئی ہے
دو پل بھی صدیاں بننے لگیں ہیں
لمحوں کو ایسے فرصت سی مل گئی ہے
خیالوں میں تیرے یوں کھونے لگے ہیں
ہم کو کیسے محبت سی ہو گئی ہے