میاں مجنوں کو کیا رسوا کریں گے
محبت نہ ہوئی تو کیا کریں گے
بہائیں گے مگر مچھوں سے آنسو
سہانی نیند کو ٹاٹا کریں گے
کہاں اشعار ہونگے ہم پہ نازل
فقط پھر الف ب لکھا کریں گے
رقیبوں سے چرائیں گے نگاہیں
محلے والوں سے الجھا کریں گے
ہر آتے جاتے سے ہونگے گریزاں
ہر آتی جاتی کو گھورا کریں گے
جہاں جوڑا کوئی دکھلائی دے گا
اسے اس جرم پہ ٹوکا کریں گے
معاشرتی زبوں حالی پہ انکو
کبھی لیکچر بھی تو جھاڑا کریں گے
کہیں گے سارے مخبوط الحواسی
ہر اک سے خوامخواہ جھگڑا کریں گے
کبھی بازار میں بھٹکا کریں گے
یاسر دیوار سے پٹخا کریں گے
لکھیں گے بے تکی تحریر اکثر
پھر اپنے آپ ہی واہ واہ کریں گے
ہراک ایگزیم میں ناگام ہونگے
بڑوں کی جھڑکیاں کھایا کریں گے
رہیں گے یاد بس اقبال و حالی
فراز و فیض کو ہم کیا کریں گے
یہ غزلیں کاٹنے کو دوڑیں گی پھر
تو ملی نغمے ہی گایا کریں گے
کسی کی شادی ہو گی یا ولیمہ
تو ہم کیا منہ دکھلایا کریں گے
تو بہتر ہے کہ کر ڈالیں محبت
مگر کس سے ذرا بتلا کریں گے