سمندر ہے زمیں ہے آسماں ہے
کہ مصنوعات میں صانع نہاں ہے
عطا ہو جائے گر چشمِ بصیرت
تو ہر ذرّہ اُسی کا ترجماں ہے
یہاں غم ہے نویدِ شادمانی
محبت کا الگ اپنا جہاں ہے
سماسکتا نہیں کون و مکاں میں
دلِ مومن مگر اُس کا مکاں ہے
ہے فیصلؔ پر کسی کی مہربانی
جبھی تو سارا عالم مہرباں ہے