محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
کہوں بے درد کیوں اہل جہاں کو
وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے
ہمارے دل میں سیل گریہ ہوگا
اگر با دیدۂ پر نم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے