محبت ہو گئی جس کو اسے اب دیکھنا کیا ہے
بھلا کیا ہے برا کیا ہے سزا کیا ہے جزا کیا ہے
ذرا تم سامنے آؤ نظر ہم سے تو ٹکراؤ
کسے پھر ہوش ہو تم نے کہا کیا ہے سنا کیا ہے
محبت جرم ایسا ہے کہ مجرم ہے کھڑا بے سدھ
کیا کیا ہے گنہ کیا ہے سزا کیا ہے خطا کیا ہے
نہ آنا عشق کے بازار میں اندھی تجارت ہے
دیا کیا ہے لیا کیا ہے بکا کیا ہے بچا کیا ہے
زمانہ جھوم اٹھا ہے صدائے داد آتی ہے
نہ جانے آج ماہمؔ نے غزل میں کہہ دیا کیا ہے