محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
Poet: Ghalib By: Jibran Saeed, Karachi
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طَعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشہٴ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا، دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسد
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
More Mirza Ghalib Poetry
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
فہد







