علامہ اسید الحق عاصم القادری بدایونی کی بغداد میں شہادت پر
میں اپنی سر بلندی پہ کیے نازاں
جھکائے سر مؤدب بڑھ رہا تھا
سنہری جالیاں نزدیک تھیں میرے
ملی اک سانحہ کی یوں خبر مجھ کو
ہوا بغداد میں جو کچھ بتایا ایک ساتھی نے
میں سَکتے میں رہا کچھ دیر
خاموشی رہی طاری
ہمار ادوست تھا اخلاص کا پیکر اُسید الحق
دکھائی دیتا تھا اَسلاف کا مظہر اُسید الحق
تھا قسمت کا سکندر وہ بنا بغداد میں مدفن
ہوا ہم قادریوں میں یوں برتر اُسید الحق
مدد کرتا تھا وہ علمی حوالوں سے ہماری خوب
اُسی نے گم شدہ ہیرے حسن کے اور رضا خاں کے
ہمیں دے کر بتایا کہ وہ کیسا نیک خصلت ہے
اُسے جانچا بہت ہم نے
اُسے پرکھا بہت ہم نے
اُسے دیکھا بہت ہم نے
اُسے سمجھا بہت ہم نے
وہ برکاتی گھرانے کا تھا منظورِ نظر بے شک
ہمارے واسطے لاریب ! تھا وہ بالیقیں لوگو!
محسن رضویّا ت کا ! محسن رضویّات کا !