محفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی

Poet: وقاص By: وقاص, Chiniot

محفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی
ہر دل پہ جیسے لہر قیامت گزر گئی

کر کے امید زندگی جیتے رہے ہیں ہم
اب کہ امید زندگی جانے کدھر گئی

ملنا تمہارا جیسے بہاروں کا انبساط
پوچھا جو میرا حال تو قسمت سنور گئی

وہ کیا خبر تھی جس نے ہمیں بے خبر کیا
وہ کیا نظر تھی زخم جگر تک اتر گئی

کیسے ہوئے فریفتہ یہ راز ہی رہا
شاید نگاہ یار بڑا کام کر گئی

الجھے ہیں اس طرح سے غم روزگار میں
لذت غم فراق کی شام و سحر گئی

اے حسن تیرے چاہنے والوں کی خیر ہو
اے عشق تیری آہ و فغاں بے اثر گئی

ہر دل سلگ رہا ہے محبت کی آگ میں
جانے بلائے عشق بھی کس کس کے گھر گئی

بدنام کر گئی ہے ہمیں رسم دلبری
جو بھی نظر اٹھی ہے وہ ہم پر ٹھہر گئی

میری کتاب غم کا بھی قصہ ہوا تمام
اس شہر نا شناس میں وہ دربدر گئی

برہمؔ گیا ہے کام سے دل بھی ہمارے ساتھ
آیا خیال یار تو بھی آنکھ بھر گئی
 

Rate it:
Views: 113
30 Jul, 2025