مدت ہوئی یار کو رخصت کیے ہوئے
آئے گا ضررو جی رہے ہیں حسرت لیے ہوئے
بدنام کیا عشق نے رسوائی ہوئی گلی گلی
خوشی ملی ان کو مجھ پے تہمت ملے ہوئے
شور مچل رہا ہے سنسان شہر میں
چلیے آرہے ہیں دل میں حسرت لیے ہوئے
برا بھلا کہتے ہیں سب کے سامنے
اور کھڑے ہیں ان کے سامنے بت بنے ہوئے
لگ رہا ہے بگولا تجھ سا آوارہ
پھیر رہا ہے خاک سی عزت لیے ہوئے