سر پہ جو پٹیاں لگا کے آئے ہو
لگتا ہے کہیں سے مار کھا کے آئے ہو
تمہارے بالوں سے ظاہر یہ ہوتا ہے
جیسے منوں مٹی میں نہا کے آئے ہو
یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے
منہ نہیں دھویا یا آنسو بہا کے آئے ہو
دنیا والوں سے چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں
مرد ہو اپنا قول نبھا کے آئے ہو
اے دوست اصغر تمہیں سدا یاد رکھے گا
جو عشق میں ہڈیاں تڑوا کے آئے ہو