سوچو تو کیسا اعلا ہے رُتبا حضور کا
عرشِ بریں نے چوما ہے تلوا حضور کا
قرآن میں ہے رفعتِ خیرالبشر رَقَم
ادراک سے بھی دور ہے رُتبا حضور کا
مدحت کا حق ادا ہو یہ ممکن نہیں کبھی
اللہ جب ہے واصف و شیدا حضور کا
طیبا میں ہورہی جوہے برسات نور کی
مرکز تجلّیوں کا ہے روضا حضور کا
پُشتوں تلک مہک نہ گئی عرقِ پاک کی
خوش بُو کا وہ خزینا پسینا حضور کا
طرزِ حیات کی نہیں تمثیل دہر میں
سب سے بلند و بالا سلیقا حضور کا
فضلِ خدا سے ہے یہ مُشاہدؔ ہمیں یقیں
دیکھیں گے ہم دوبارہ مدینہ حضور کا