مری بے نشانیوں میں یہ نشاں بنا ہوا ہے
ترا ورد میرےآقا مری جاں بنا ہوا ہے
مرے قلب و روح پہ بھی ہوا نقش سبز گنبد
جو وہاں ضو فشاں ہے ، وہ یہاں بنا ہوا ہے
ہے خیالِ کوئے طیبہ سے عجیب ربط میرا
میں مکیں بنا ہوا ہے وہ مکاں بنا ہوا ہے
تری یاد سے جو نکلا تو رہوں گا کچھ نہ باقی
میں اسی پہ مشتمل ہوں جو دھیاں بنا ہوا ہے
تری نعت پڑھ رہا ہوں یہ کہا ہے رفعتوں نے
ذرا دیکھ لیں ٹھہر کے جو سماں بنا ہوا ہے
مجھے اک جھلک دکھاو کہ میں آ نکیں کھول پاوں
یہ مرے لئے زمانہ تو دھواں بنا ہوا ہے
کسی اور در پہ ثاقب ، بھلا کیوں صدا لگائے
جو گدا،گدائے شاہِ دو جہاں بنا ہوا ہے