مری وفا نے کھلائے تھے جو گلاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری آنکھوں میں جس قدر تھے وہ خواب سارے جھلس گئے ہیں
مری زمیں کو کسی نئے حادثے کا ہے انتظار شاید
گناہ پھلنے لگے ہیں اجر و ثواب سارے جھلس گئے ہیں
جو تم گئے تو مری نظر پہ حقیقتوں کے عذاب اترے
یہ سوچتا ہوں کہ کیا کروں گا سراب سارے جھلس گئے ہیں
یہ معجزہ صرف ایک شب کی مسافتوں کے سبب ہوا ہے
تمہارے اور میرے درمیاں کے حجاب سارے جھلس گئے ہیں
اسے بتانا کہ اس کی یادوں کے سارے صفحے جلا چکا ہوں
کتاب دل میں رقم تھے جتنے وہ باب سارے جھلس گئے ہیں
نظر اٹھاؤں میں جس طرف بھی مہیب سائے ہیں ظلمتوں کے
یہ کیا کہ میرے نصیب کے ماہتاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری نظروں کی یہ تپش ہے کہ میرے لفظوں پہ آبلے ہیں
سوال سارے جھلس گئے ہیں جواب سارے جھلس گئے ہیں
یہ آگ خاموشیوں کی کیسی تمہاری آنکھوں میں تیرتی ہے
تمہارے ہونٹوں پہ درج تھے جو نصاب سارے جھلس گئے ہیں