مرے ہوئے باپ کے لئے
Poet: فوزیہ By: فوزیہ, Karachiپالنے والے چلے کیوں جاتے ہیں اتنی محنت کرتے
ہیں اتنا بڑا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں
احساس کمی چھوڑ گئے وہ
انکو جانا تھا چلے گئے وہ
اپنے پیچھے کتنوں کو روتا چھوڑ گئے وہ
غم کے آنسوں دریا بنا گئے وہ
اپنوں کو اکیلا چھوڑ گئے وہ
بہت کچھ ادھورا چھوڑ گئے وہ
اپنا پیار محبت ساتھ لے گئے وہ
بہت سی یادیں چھوڑ گئے وہ
اپنے گلستان کو ویران کر گئے وہ
سارے رشتوں سے ناتے توڑ گئے وہ
وہ ایک عظیم ہستی
اپنا مقام بنا گئے وہ
ان سا نہ کوئی تھا نہ کوئی ہے
نام وہ اپنا پہچان وہ اپنی چھوڑ گئے وہ
کتنی محبت سے پالا
اب کس کے سہارے چھوڑ گئے وہ
ان جانے سپنے دیکھ کر وہ
ادھورے چھوڑ گئے وہ
اپنے آپ تکلیفیں اٹھا کر
سب کو خوشیاں دیتے رہے وہ
اب انہی سب لوگوں کو وہ
روتا چھوڑ گئے وہ
کاش کہ یہ سب سپنا ہو
آنکھ کھلتے ہی سامنے آجاتے وہ
کاش کہ یہ سب سپنا ہو تا
آنکھ کھلتی تو آمنے سامنے آجاتے وہ






