کچھ چاہ رہے ہیں ہیں قافیوں میں نقص نکالیں
کچھ کے لئے یہی کہ اپنا وزن سنبھالیں
کچھ بحر کے سکتوں پہ ہی سکتے میں پڑے ہیں
کچھ لکھنؤ کی طرح یگانہ سے لڑے ہیں
سوئے ہوئے ضمیر کو جو میں نے جگایا
دو چار من کا قافیہ بھی دوڑتا آیا
میں نے کہا کہاں پہ بسیرا ہے آجکل
کہنے لگے کہ فدوی بٹیرا ہے آجکل
احمد ندیم قاسمی سب چھوڑ کر سخن
ڈاکٹر وزیر آغا سے کشتی میں ہیں مگن
وہ گردن منیر ہے یا غم کا طوق ہے
بولے جناب یہ تو اپنا اپنا شوق ہے
یہ اردو شاعری کی الف ب ہیں دوستو
اک بے وفا کا شہر ہے اور یہ ہیں دوستو
احمد فراز آئے تو سب پوچھ رہے ہیں
تجدید وفا میں کہیں مصرف رہے ہیں؟
کہنے لگنے کہ کیوں ہے تجسس جناب کو
میں تو بلا رہا تھا کسی انقلاب کو
کچھ سخنور جو کونے میں دبکے سے پڑے ہیں
کچھ اختلاف سخن میں آپس میں لڑے ہیں
کچھ بات بڑھ گئی ہے جو حد کلام سے
ٹکرانا شروع ہو گئے ہیں جام جام سے
برخواست اسی یرہی آج کی بزم ہوئی
جیسا کہ پانی پت کی لڑائی ختم ہوئی