بزم سخن ہے جاری بڑے زور و شور سے
ہم سے بھی پھر رہے ہیں یہاں ٹہور ٹہور سے
وہ شوق سے پھر ذوق نے کیا ٹانگ لیا ہے
شاید ظفر نے شعر کوئی مانگ لیا ہے
مومن نے بہت گریہ و فریاد کیا ہے
چھٹی نہ ملی جبکہ سبق یاد کیا ہے
بگڑے ہوئے شاہیں کے پرو بال پڑے ہیں
سوچوں میں پھر سے حضرت اقبال پڑے ہیں
سب سوچتے ہیں کونسی انکی دوا کریں
درد انیس کم نہیں ہوتا ہے کیا کریں
وہ آ رہے ہیں فیض شب غم گزار کے
کمیونزم کے بھرم کو دل سے اتار کے
مجھکو تو لگ رہا ہے کہ بازار چلے ہیں
لیکن وہ کہہ رہے ہیں سوئے دار چلے ہیں
بیٹھے ہیں وہ حفیظ بڑے اہتمام سے
باقی کھڑے ہیں قومی ترانے کے نام سے
ابھی تو میں جوان ہوں جب سب کو سنایا
میں نے ہنسی کو بہت ہی مشکل سے دبایا