مسرتوں کے خزانے ہی کم نکلتے ہیں
کسی بھی سینے کو کھولو تو غم نکلتے ہیں
ہمارے جسم کے اندر کی جھیل سوکھ گئی
اسی لیے تو اب آنسو بھی کم نکلتے ہیں
یہ کربلا کی زمیں ہے اسے سلام کرو
یہاں زمین سے پتھر بھی نم نکلتے ہیں
یہی ہے ضد تو ہتھیلی پہ اپنی جان لیے
امیر شہر سے کہہ دو کہ ہم نکلتے ہیں
کہاں ہر ایک کو ملتے ہیں چاہنے والے
نصیب والوں کے گیسو میں خم نکلتے ہیں
جہاں سے ہم کو گزرنے میں شرم آتی ہے
اسی گلی سے کئی محترم نکلتے ہیں
تمہی بتاؤ کہ میں کھلکھلا کے کیسے ہنسوں
کہ روز خانۂ دل سے علم نکلتے ہیں
تمہارے عہد حکومت کا سانحہ یہ ہے
کہ اب تو لوگ گھروں سے بھی کم نکلتے ہیں