حسین ابن علی کربلا میں سر اپنا کٹا کے چلے
جھکانے آئے تھے جو اپنے آگے وہی اٹھا کے چلے
منارہا ہے غم حسین کا یہ آسمان آج بھی
زخم ایسا کائنات کے ذرہ ذرہ کو لگا کے چلے
شرف زیارت کا بخش کے ابن عباس کو خواب میں
فرمایا رسول نے خون شہداء شیشی میں سما کے چلے
توہین سر حسین دیکھی نہ گئی زیدبن ارقم سے
غلام بن گئے ہوتم یزیدیوان کو بتا کے چلے
جان قربان کرکے ناموس اہلبیت پر ابن عفیف ازدی
یہی ہے مصرف زندگی دنیا والوں سے فرما کے چلے
تعظیم سر حسین کرنے سے ملی راہب کو دولت ایمان
تحریریں عبرت وانجام کی دشمنان حسین کوپڑھا کے چلے
گمان تھا یزیدیوں کو ہوں گے چرچے ہماری بہادری کے
حسین کے سر کو اسی لیے کوفہ میں پھرا کے چلے
داستان اصحاب کہف عجیب سہی عجیب تر ہے قتل میرا
قرآن کے قاری کوابن حیدر یہی سمجھا کے چلے
ادا کردیا قرض اپنے نانا کا میدان کربلا میں
یوم الست کا کیا ہوا شبیر وعدہ نبھا کے چلے
پوچھئے علماء سے لالچی قاتلان حسین کا کیا ہوا انجام
قتل ہوئے سب اسی طرح سلسلے جب سزا کے چلے
کامراں رہے امتحان صبرورضا میں شہدائے کربلا اسیران کربلا
قربان ہوکرصدیق دین اپنے نانا کا بچا کے چلے