مصلے پہ سجدوں کا غم ایلیا
ہے القدس زیرِ ستم ایلیا
لہو کی منادی سے وادی بھری
مدد یا الہی کرم ایلیا
دیارِ مقدّس کی آتش بجھے
بہت کم ہے آنکھوں کا نم ایلیا !
اسے کوئی طعنہ جگاتا نہیں
اس امت کی غیرت عدم ایلیا
دھواں ہو گئیں طاق راتیں مری !
مجھے کھا گیا یہ الم ایلیا
کہوں العجل العجل العجل
رخِ ایلیا ہو بہم ایلیا
بھلا ایک مصرعے میں کیسے کروں !
میں زخمِ فلسطیں رقم ایلیا
وبا سانس روکے کھڑی ہے یہاں
دعا کا نہ گھٹ جائے دم ایلیا
میں ہوں کیا ! فقط ایک شاعر علی !
اٹھاتا ہوں پھر بھی عَلَم ایلیا