جلوۂ حسنِ ازل ہر شے میں یوں مستور ہے
دیدۂ بینا کی خاطر ہر قدم پہ طور ہے
ابر و باد و بحر و بر میں تیری قدرت ہے عیاں
ہر دو عالم لفظِ کُن کے فیض سے معمور ہے
کیفِ ذکرِ حق سے قائم ہے نظامِ کائنات
ذرّہ ذرّہ دو جہاں کا مست ہے مخمور ہے
یہ ہے معراجِ محبت عاشقوں کے واسطے
ذکر کی برکت سے ذاکر کو ملا مذکور ہے
کیا سے کیا تونے کیا ہے اے خیالِ کبریا
تیری یادوں کے تصدّق ہر بُنِ مُو نور ہے
فیصلِؔ خستہ پہ کیا ہو دردِ فرقت کا اثر
ہجر میں بھی وہ تمھاری یاد سے مسرور ہے