نام جب اُن کا لکھا ہو گیا بہتر کاغذ
اُن کے اوصاف کی خوشبو سے معنبر کاغذ
سادہ تھا ، چھپ گیا جب اُس پہ قرآنِ اکرم
بن گیا دیکھو مقدّر کا سکندر کاغذ
شاخِ طوبیٰ کے قلم سے ہو رقم نعتِ نبی
تو لکھوں لالہ و گل کے میں بنا کر کاغذ
جس پہ سرکار کا فرمان ہوا ہے مرقوم
ہے وہ لاریب! بڑا دل کش و سُندر کاغذ
جس پہ نامِ شہِ کونین ہو ارقام وہی
میری نظروں میں ہےوہ بہتر و برتر کاغذ
جس پہ ہو عارضِ تاباں کی صفت کا احوال
کردے نامہ کی سیاہی کو منوّر کاغذ
ہے مُشاہدؔ کی دعا از پَے حسنین ، خدا!
’’حشر میں ہو مرے نامہ کا معطّر کاغذ‘‘
٭