مل گئے پر حجاب باقی ہے
Poet: انشاء اللہ خان انشا By: Umair Khan, Karachi
مل گئے پر حجاب باقی ہے
فکر ناز و عتاب باقی ہے
بات سب ٹھیک ٹھاک ہے پہ ابھی
کچھ سوال و جواب باقی ہے
گرچہ معجون کھا چکے لیکن
دور جام شراب باقی ہے
جھوٹے وعدے سے ان کے یاں اب تک
شکوۂ بے حساب باقی ہے
گاہ کہتے ہیں شام ہوئی ابھی
ذرۂ آفتاب باقی ہے
پھر کبھی یہ کہ ابر میں کچھ کچھ
پرتو ماہتاب باقی ہے
ہے کبھی یہ کہ تجھ پہ چھڑکیں گے
جو لگن میں شہاب باقی ہے
اور بھڑکے ہے اشتیاق کی آگ
اب کسے صبر و تاب باقی ہے
اڑ گئی نیند آنکھ سے کس کی
لذت خورد و خواب باقی ہے
ہے خوشی سب طرح کی، ناحق کا
خطرۂ انقلاب باقی ہے
ہے وہ دل کی دھڑک سو جوں کی توں
جی پر اس کا عذاب باقی ہے
جو بھرا شیشہ تھا ہوا خالی
پر وہ بوئے گلاب باقی ہے
اپنی امید تھی سو بر آئی
یاس شکل سراب باقی ہے
ہے یہی ڈول جب تک آنکھوں میں
دم بسان حباب باقی ہے
مثل فرمودۂ حضور انشاؔ
پھر وہی اضطراب باقی ہے
فکر ناز و عتاب باقی ہے
بات سب ٹھیک ٹھاک ہے پہ ابھی
کچھ سوال و جواب باقی ہے
گرچہ معجون کھا چکے لیکن
دور جام شراب باقی ہے
جھوٹے وعدے سے ان کے یاں اب تک
شکوۂ بے حساب باقی ہے
گاہ کہتے ہیں شام ہوئی ابھی
ذرۂ آفتاب باقی ہے
پھر کبھی یہ کہ ابر میں کچھ کچھ
پرتو ماہتاب باقی ہے
ہے کبھی یہ کہ تجھ پہ چھڑکیں گے
جو لگن میں شہاب باقی ہے
اور بھڑکے ہے اشتیاق کی آگ
اب کسے صبر و تاب باقی ہے
اڑ گئی نیند آنکھ سے کس کی
لذت خورد و خواب باقی ہے
ہے خوشی سب طرح کی، ناحق کا
خطرۂ انقلاب باقی ہے
ہے وہ دل کی دھڑک سو جوں کی توں
جی پر اس کا عذاب باقی ہے
جو بھرا شیشہ تھا ہوا خالی
پر وہ بوئے گلاب باقی ہے
اپنی امید تھی سو بر آئی
یاس شکل سراب باقی ہے
ہے یہی ڈول جب تک آنکھوں میں
دم بسان حباب باقی ہے
مثل فرمودۂ حضور انشاؔ
پھر وہی اضطراب باقی ہے
رہے اب تک امیدواری میں
ہاتھ گہرا لگا کوئے قاتل
زور لذت ہے زخم کاری میں
دل جو بے خود ہوا صبا لائی
کس کی بو نگہت بہاری میں
ٹک ادھر دیکھ تو بھلا اے چشم
فائدہ ایسی اشک باری میں
چٹ لگا دیتے ہیں مرے آنسو
سلک گوہر کے آب داری میں
روٹھ کر اس سے میں جو کل بھاگا
ناگہاں دل کی بے قراری میں
آ لیا اس نے دوڑ کر مجھ کو
تاک کے اوچھل ایک کیاری میں
یوں لگا کہنے بس دوانہ نہ بن
پاؤں رکھ اپنا ہوشیاری میں
کب تلک میں بھلا رہوں شب و روز
تیری ایسی مزاج داری میں
ہے سمایا ہوا جو لڑکا پن
آپ کی وضع پیاری پیاری میں
اپنی بکری کا منہ چڑاتے وقت
کیا خوش آتی ہے یہ تمہاری ''میں''
بندۂ بو تراب ہے انشاؔ
شک نہیں اس کی خاکساری میں
کہ بنا ہوا ہو جو خاک سے اسے کیا مناسبت آگ سے
بہت اپنی تاک بلند تھی کوئی بیس گز کی کمند تھی
پر اچھال پھاندا وہ بند تھی ترے چوکیداروں کی جاگ سے
بہت آئے مہرے کڑے کڑے وہ جو منڈ جی تھے بڑے بڑے
ولے ایسے تو نہ نظر پڑے کہ جو صاف پاک ہوں لاگ سے
وہ سیاہ بخت جو رات کو ترے دام زلف میں پھنس گیا
اسے آ کے وہم و خیال کے لگے ڈسنے سیکڑوں ناگ سے
بھرا میں نے بندرابن میں جو ارے کشن ہوپ کا نعرہ تو
مہاراج ناچتے کودتے چلے آئے لٹ پٹی پاگ سے
لگے کہنے کھیم کُسل اسے جو علیؔ کے دھیان کے بیچ ہے
تورے دکھ دلدر جتی تھے گئے بھاگ آپ کے بھاگ سے
ہوئے عاشق ان کے ہیں مرد و زن یہ انوکھی ان کی بھی کچھ نہیں
کوئی تازہ آئے ہیں برہمن یہ جو کاشی اور پراگ سے
تجھے چاہتے نہیں ہم ہیں بس انہوں کو بھی تو تری ہوس
وہ جو بھکڑے بیر سے سو برس کے پرانے بوڑھے ہیں داگ سے
اے لو آئے آئے سوائے کچھ نہیں بات دھیان میں چڑھتی کچھ
کچھ اک ان فقیروں کی مجلسیں بھی تو ملتی جلتی ہیں بھاگ سے
مجھے کام ان کے جمال سے نہ تو ٹپّے سے نہ خیال سے
نہ تو وجد سے نہ تو حال سے نہ تو ناچ سے نہ تو راگ سے
یہ سعادت اس کو علیؔ نے دی جو وزیر اعظم ہند ہے
کہ بدولت اس کی جہان میں نہیں خوف بکری کو باگ سے
مجھے رحم آتا ہے ایسوں پر بسر اپنے کرتے ہیں وقت جو
کسی پھل سے یا کسی پھول سے کسی پات سے کسی ساگ سے
گتھی ان سروں ہی میں آ گئی مجھے اک عروس کے باس سے
ابھی انشاؔ اپنا ہو بس اگر تو لپٹ ہی جاؤں بہاگ سے
یہ آگ عشق کی یا رب کدھر سے اتری ہے
اترتی نجد میں کب تھی سواریٔ لیلیٰ
ٹک آہ قیس کے جذب اثر سے اتری ہے
نہیں نسیم بہاری یہ ہے پری کوئی
اڑن کھٹولے کو ٹھہرا جو فر سے اتری ہے
نہ جان اس کو شب مہ یہ چاندنی خانم
کمند نور پہ اوج قمر سے اتری ہے
چلو نہ دیکھیں تو کہتے ہیں دشت وحشت میں
جنوں کی فوج بڑے کر و فر سے اتری ہے
نہیں یہ عشق تجلی ہے حق تعالی کی
جو راہ زینۂ بام نظر سے اتری ہے
لباس آہ میں لکھنے کے واسطے انشاؔ
قلم دوات تجھے عرش پر سے اتری ہے
یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی
مرنا مرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹک
اٹکا ہے دم مرا یہ دم واپسیں سہی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا برا ہو کچھ
میری طرف کو دیکھیے میں نازنیں سہی
کچھ پڑ گیا ہے آنکھ میں رونا کہے ہے تو
کیوں میں عبث کو بحثوں یہی دل نشیں سہی
آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے یہیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضایقہ انشاؔ سے کیں سہی
لو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
مشغول کیا چاہئے اس دل کو کسی طور
لے لیویں گے ڈھونڈ اور کوئی یار ہم اچھا
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا
اغیار سے کرتے ہو مرے سامنے باتیں
مجھ پر یہ لگے کرنے نیا تم ستم اچھا
ہم معتکف خلوت بت خانہ ہیں اے شیخ
جاتا ہے تو جا تو پئے طوف حرم اچھا
جو شخص مقیم رہ دل دار ہیں زاہد
فردوس لگے ان کو نہ باغ ارم اچھا
کہہ کر گئے آتا ہوں کوئی دم کو ابھی میں
پھر دے چلے کل کی سی طرح مجھ کو دم اچھا
اس ہستئ موہوم سے میں تنگ ہوں انشاؔ
واللہ کہ اس سے بہ مراتب عدم اچھا






