میرے صنم! سمجھا نہ کر نورجہاں مجھ کو
میں جہاں ہوں رہنے دے وہاں مجھ کو
نہ میں حور پری نہ تُو کوئی شہزادہ ہے
بندہ تُو بس ایک غریب سیدھا سادہ ہے
ہے اپنی آخر کیا بساط سچ سے نہ بھاگ
ٹھہر جا بتا تو سہی تیرا کیا ارادہ ہے
میرے صنم! لے آیا ہے تُو کہاں مجھ کو
میں جہاں ہوں رہنے دے وہاں مجھ کو
وہ باغوں میں کبوتر اڑانا آتا نہیں مجھے
وہ گلابوں سے عطر نکالنا آتا نہیں مجھے
کیوں لا کے رکھ دیا ہے پاندان میرے سامنے
وہ چُونے میں کتھا ملانا آتا نہیں مجھے
شعر کہنا فقط لگتا ہے آساں مجھ کو
میں جہاں ہوں رہنے دے وہاں مجھ کو
اِک قتالہ نے چلا کر ناز و انداز کے تیر
شہنشاہِ ہند کو بنایا اپنی زلف کا اسیر
رعنا بھلا وہ عشوے غمزے کہاں سے لائے
کہ اِک سلطنت جس سے ہو جائے تسخیر
کیوں پکارا تُو نے کہہ کے نورجہاں مجھ کو
میں جہاں ہوں رہنے دے وہاں مجھ کو