دعوے زباں پہ پیار کے دل میں مخاصمت
دنیا سمجھ چکی ہے تیری یہ منافقت
میں نے جلائیں پیار و محبت کی مشعلیں
تو نے کری ہے امن و سکوں کی مخالفت
مجھ کو سحر سے عشق تجھے شب عزیز ہے
کس طرح سے یہاں پہ ہو تجھ سے مفاہمت
اے کاش تو بھی سیکھ لے آدبِ رندگی
تو جان لے یہاں کے اصول ِ معاشرت
سننے کو حق کی بات وہ تیار ہی نہیں
کیونکر یہاں پہ اس سے ہو کوئی مشاورت
کچھ لوگ تھے یہاں جو امن کے سفیر تھے
وہ دے گئے جہان کو داغ مفارقت
چل چل کے تھک چکی ہے یہاں زندگی کی سانس
اب اور اس سے ہوگی نہ اشہر مسافرت