جھوٹ پر مبنی وفاؤں کو جتا کر تم نے
اپنے کردار ریاؤں میں چھپانے والوں
ڈال کر جرم پہ ہر بار خطاء کا پردہ
خون مظلوم عباؤں میں چھپا نے والوں
راز نیلام کیئے زر کی طلب میں تم نے
اپنی سازش کو عطاؤں میں چھپا نے والوں
ذات کو اپنی نشا نے سے بچا نے کے لیئے
چھوٹ کو نعرؤں ،صداؤں میں اٹھا نے والوں
تم نے تسنیم و صباء کہہ کے چلا ئی صر صر
خوف میں ڈوبی ہواؤں کو چلا نے وا لوں
اپنی ناکا می کو انداز سیا ست کہہ کر
اپنی غلطی کو خطا ؤں میں دکھانے والوں
با غبا ں بن کے گلستا ں میں تبا ہی لا ئے
سسکی نکلی تو جفاؤں سے دبا نے والوں