منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ایمان تیرا لٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے
ایماں تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں
اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر
کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو
پیدل خود چلے جو وہ آقا تلاش کر