وہ جس کے دل میں دوستو ! علی کا احترام ہے
سمجھ لو اس کا بالیقیں بہشت میں مقام ہے
پکڑ کے ہاتھ مصطفیٰ نے یوں علی کا کہہ دیا
سنو سنو ! جہان کا اسی میں انتظام ہے
یہ معرفت کے راستے ، علی کے در سے جاتے ہیں
ولایتوں کا بالیقیں علی علی امام ہے
مرے لبوں پَہ ورد ہے علی علی علی علی
اسی لیے تو خوف کا نہ میرے دل میں نام ہے
علی کی آنکھیں ہوگئیں بھلی ،بتانا تھا یہی
کہ آج فتحِ خیبری علی علی کے نام ہے
نبی کے چار یاروں میں تھا باہمی خلوص وہ
حیاتِ مرتضیٰ علی میں ہاں یہی پیام ہے
وہ تختِ شاہی اپنی ٹھوکروں میں رکھتا ہے سنو!
علی کا جو غلام ہے ، علی کا جو غلام ہے
مَولِدِ علی ولی ہے کعبۂ مشرفہ
بتاؤ تو کسی بشر کا ایسا کیا مقام ہے ؟
علی شہید بیٹے بھی نواست پوتے بھی شہید
سنو! تو کیسی شان کاعلی مرا امام ہے
علی کے لفظ لفظ کے حضور ہیچ بحر و بر
مرا علی مرا علی جوامع الکلام ہے
حالتِ نماز میں وہ نیزے کا نکالنا
رکوع ، سجود علی کا کیسا منفرد قیام ہے
حبِ آلِ مصطفیٰ میں ہم جئیں ، مریں خدا
لبِ مُشاہدِ رضوی پہ عرض یہ مدام ہے