موت تو ہر نفس کو ہی آنی ہے
آن سے بھی ترک غفلت کرنی ہے
عاقبت کی فکر غالب ہو سدا
سرخروئی پھر مقدر ہونی ہے
عارضی ہیں ساری تو آسائشیں
بنگلہ، موٹر دھری ہی رہنی ہے
دعوے بھی انساں نے رب کے جو کئے
ایک عبرت کی نشانی چھوڑی ہے
حرص ہی فرعون کو لے ڈوبی تھی
مال و دولت شئہ بری ہی ہوتی ہے
جو خسارہ والی باتیں پائیں گر
پھر برتنا ان سے خاصی دوری ہے
جان ناصر صرف ہو اعمال پر
آخری دم تک جو کاوش لینی ہے