موسمِ گل میں عجب رنگِ بہار آیا ہے
ذرے ذرے کو تیرے دم سے نکھار آیا ہے
جھوم اٹھی ہے تیرے آنے کی سن کر باتیں
دیدہ شوق کو خود اپنے پہ پیار آیا ہے
تیرا معراج پہ جانا تھا کہ اس عالم میں
نُوریوں کو بھی تجھے دیکھے قرار آیا ہے
اپنی قسمت پہ وہ جتنا بھی کریں ناز ہے کم
جن کا امت میں تیری شرفِ شمار آیا ہے
توُ تو اپنا ہے پھر اپنوں سے پردہ کیسا
طالبِ دید سوئے کوچہ ء یار آیا ہے
خوشبوئے گیسوئے عنبر ہے فضا میں شامل
جس نے سانسوں کو میری آج بھی مہکایا ہے
اب دلدر تو گئے سارے زمانے بھر کے
طاہر ان کا ہے کرم من کو قرار آیا ہے