میں تھا تمہارے عقب میں
میں نے دیکھا اوٹ سے
تم جھکے اور کھڑے ہوگئے,
ایک کپڑا آستیں کا
اٹک ساگیا تھا
تمہاری کمر کے ذرا سا اوپر
ٹھہر گیا سا تھا
جیسے کہ رکھا ہو ذوق سے
میں نے دیکھا میں نے سوچا
یہ کمر تو ہر دن بڑھی جارہی ہے
جیسے خود سے گھڑی جارہی ہے
کمر سے کمرہ ہوئی جا رہی ہے
حد سے تجاوز کیے جارہی ہے
یہ ہی سلسلہ رہا قائم اگر
حسن کو ماند کردے گی یہ مگر
دل میں آیا کہ مشورہ دوں کوئی
پھر یہ بھی سوچتا ہوں بے ادبی نہ ہو
کیا بتاوں تجھے اے میری جانجاں
تیری کمر ہی تو میرا خواب ہے
اک اسی میں تو ہیں میری دلچسپیاں
برا نہ مانو میری بات کا
خدارا اس کا کوئی حل کرو