تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کَہہ سکا نہ تُو سُن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ترے شہر میں مِرا ہم سفر، وہ دُکھوں جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
وہ جو خواب تھے مِرے سامنے، جو سراب تھے مِرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ہُوا جس گھڑی ترا سامنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
کہیں بے کنار تھی خواہشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو مِرا خدا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تری کھڑکیوں پہ جُھکے ہوئے، کئی پھول تھے ہمییں دیکھتے
تری چھت پہ چاند ٹھہر گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مجھے وہم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں مِری
سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، مِری بات بیچ میں رہ گئی