مِری بات بیچ میں رہ گئی
Poet: امجد اسلام امجد By: Zaid, Sialkot
تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کَہہ سکا نہ تُو سُن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ترے شہر میں مِرا ہم سفر، وہ دُکھوں جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
وہ جو خواب تھے مِرے سامنے، جو سراب تھے مِرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ہُوا جس گھڑی ترا سامنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
کہیں بے کنار تھی خواہشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو مِرا خدا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تری کھڑکیوں پہ جُھکے ہوئے، کئی پھول تھے ہمییں دیکھتے
تری چھت پہ چاند ٹھہر گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مجھے وہم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں مِری
سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں






