مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
Poet: ساحل By: ساحل, Lahoreمٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
جلا کر خط محبت کے بجھاتا ہی رہا خود کو
چلا کر فون میں شب بھر کہیں جگجیت کی غزلیں
لگا کر کش میں سگریٹ کے جلاتا ہی رہا خود کو
ہوا جو قتل خوابوں کا بہا آنسو کا جو دریا
تو پھر نمکین پانی میں ڈبوتا ہی رہا خود کو
وہ شاعر تھا یا دیوانہ یا کوئی غم کا مارا تھا
اکیلا شخص تھا ایسا جو گاتا ہی رہا خود کو
جو ٹوٹا دل مسافرؔ کا تو کرکے بند کمرے کو
ترنم میں غزل پڑھ کر سناتا ہی رہا خود کو
More Aman Kumar Musafir Poetry
مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
جلا کر خط محبت کے بجھاتا ہی رہا خود کو
چلا کر فون میں شب بھر کہیں جگجیت کی غزلیں
لگا کر کش میں سگریٹ کے جلاتا ہی رہا خود کو
ہوا جو قتل خوابوں کا بہا آنسو کا جو دریا
تو پھر نمکین پانی میں ڈبوتا ہی رہا خود کو
وہ شاعر تھا یا دیوانہ یا کوئی غم کا مارا تھا
اکیلا شخص تھا ایسا جو گاتا ہی رہا خود کو
جو ٹوٹا دل مسافرؔ کا تو کرکے بند کمرے کو
ترنم میں غزل پڑھ کر سناتا ہی رہا خود کو
جلا کر خط محبت کے بجھاتا ہی رہا خود کو
چلا کر فون میں شب بھر کہیں جگجیت کی غزلیں
لگا کر کش میں سگریٹ کے جلاتا ہی رہا خود کو
ہوا جو قتل خوابوں کا بہا آنسو کا جو دریا
تو پھر نمکین پانی میں ڈبوتا ہی رہا خود کو
وہ شاعر تھا یا دیوانہ یا کوئی غم کا مارا تھا
اکیلا شخص تھا ایسا جو گاتا ہی رہا خود کو
جو ٹوٹا دل مسافرؔ کا تو کرکے بند کمرے کو
ترنم میں غزل پڑھ کر سناتا ہی رہا خود کو
ساحل






