مکتبِ عشق کا نصاب لیےپھرتا ہے
خود اپنی جان پہ عذاب لیے پھرتا ہے
عشق کے ہنر سے وہ واقف نہیں ابھی
جو بستیِ عشق میں چراغ لیے پھرتا ہے
اے فرشتو چھوڑدو ذرا اعمال کو لکھنا
ہر شخص اِک دوسرے کا حساب لیے پھرتا ہے
ادائیں دیکھ کہ جلتے ہیں میخانے بھی اکثر
اپنی آنکھوں میں ایسی ہی شراب لیے پھرتا ہے
بِنا ہتھیارکےہی جو دشمن کی دھجیاں اُڑا دے
زباں پر کچھ ایسے وہ الفاظ لیے پھرتا ہے
تعلق تیرا بھی عشق سے کبھی رہ چکا ہے عامر
تبھی تو درد کی دولت بے حساب لیے پھرتا ہے