مہکنے کا قرینہ آ گیا ہے
غزل کو زخم سینا آ گیا ہے
چراغوں کی لویں اب سست کر دو
ستاروں کو پسینا آ گیا ہے
اے میری زندگی تجھ سے بچھڑ کر
مجھے قسطوں میں جینا آ گیا ہے
چلو طوفاں سے بھی اب بات کر لیں
کنارے پر سفینہ آ گیا ہے
اتر جائے گا سورج تیرا نشہ
دسمبر کا مہینہ آ گیا ہے