میار گرتا نہ دوستوں کانہ ہم بھی دشمن کی ڈھال ہوتے
ظعیف دشمن پےوار کرتے تو وقت کے ہم دجال ہوتے
نہیں تھا اپنا مزاج ایسا کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
ورنہ ایسے جواب دیتے کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ھماری فطرت کو جانتا ہےتبھی تو دشمن یہ کہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا جو دوست ہوتے کمال ہوتے
جو آکےتم حال پوچھ لیتےتو اتنی لمبی نہ عمرلگتی
کہ وصل کی اک گھڑی میں سارےگزر گئے ماہ و سال ہوتے
اسے مبارک مقام اونچا صحیح حقیقت ہمیں پتہ ہے
بناتے رشتوں کی ہم بھی سیڑھی تو آسمان کی مثال ہوتے