انسان ہے وہی ، وہی انساں بلند ہے
جس کو غلامیِ شہِ طیبہ پسند ہے
دنیا جسے سمجھتی ہے دیوانۂ رسول
میری نگاہ میں تو وہی ہوش مند ہے
عشقِ جہاں کا دل میں وہ لائیں خیال کیوں
عشقِ نبی ہی جن کے لیے سُود مند ہے
دل سے بھلادیے ہیں جو فرمانِ مصطفیٰ
دوزخ سے صرف اُن کو ہی خوفِ گزند ہے
محبوب ہے گدائیِ خیرالوریٰ جسے
اللہ کی جناب میں وہ ارجمند ہے
جاری ہے اب بھی پینے پلانے کا سلسلہ
مَے خانۂ رسول غلط ہے کہ بند ہے
سرکار ناخدا ہیں تو کشتی کی فکر کیا؟
مانا مُشاہدؔ جوش میں موجِ سمند ہے