درود مصطفی صلی الله علیہ وسلم
میدان حشر میں تشنگی کا سماں تھا
پیاس پہ زمانوں کا گماں تھا
گھٹا کی طرح سر پر سایہ کر دیا
سب درود جو کبھی میرے ورد زباں تھا
ساقیٴ کوثر کی نظر کرم مجھ پر تھی
سامنےآب کوثر کا چشمہ رواں تھا
اک اک دن ھزاروں سال پر محیط
تشنہٴ دید کو مگر ہوش کہاں تھا
فردوس بریں کی طرف آنکھ نہ اٹھی
جمال مصطفی کا عجب سماں تھا
خورشید تو تھا سوا نیزے پر مگر
جیسے مہتاب ہو چاندنی کا سیل رواں تھا
دفترعمل کالی رات سا سیاە تھا
درود جیسے ستاروں کی کہکشاں تھا