میرا آغاز بیاں شوخئ تحریر بھی تھا
Poet: Haya Ghazal By: Haya Ghazal, Karachiمیرا انداز بیاں شو خی تحریر بھی تھا
میرے لفظوں کی وہ کھوئی ہوئی تاثیربھی تھا
بات بے بات ہنسی ہنستا دمکتا چہرہ
شوخ انداز تھا ظالم کا جو دلچیر بھی تھا
وہ بگڑ جاتا تھا ہر بات کے آغاز میں ہی
کھونا آداب تکلم مری تقصیر بھی تھا
نا ز ہر بات پر اند ا ز دکھا نا ان کا
آج سمجھے ہیں سبب عشق کی تشہیربھی تھا
اس کے اخلاق بھی تھے علم عروضی جیسے
وہ کبھی زیر،زبر پیش کی تفسیر بھی تھا
اس کے باطن کی بہر حا ل تمنا کر نا
تھا تو امکان سے باہر مری تدبیر بھی تھا
خواب آنکھوں میں بسا تھا جو کبھی مدت سے
لوگ کہتے ہیں کہ وہ ممکن تعبیر بھی تھا
کیسے کر پاتا میں اظہا ر کسی وحشت کا
جھکنا فطرت میں نہیں کیونکہ اناگیر بھی تھا
میرا ہنستا ہوا چہرہ تھا دکھانے کے لیئے
ورنہ میں ہجر کا مارا ہوا دلگیر بھی تھا
بے یقیں فیصلے کمزور ارادے بھی مرے
کانچ بن کر یہ بکھرنا میری تقدیر بھی تھا
کیسے ہوتا بھلا ناکام ستمگر وہ مرا
آخراس شوخ کےترکش میںکوئ تیربھی تھا
جان محفل ہوا کرتے تھے جہاں پر کل تک
آج پوچھاوہیں ہراک نےکوئی میر بھی تھا
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






