کسی کو پینے کا شوق ہے کسی کو پلانے کا
ہمیں تو شوق ہے خیالی گھوڑے دوڑانے کا
وہ شخص کبھی خاموش بیٹھ ہی نہیں سکتا
جسے شوق ہو محفلوں میں غزلیں سنانے کا
نہ جانے کیوں انہیں اپنے دل میں جگہ دی
اب وہ نام نہیں لیتے یہاں سے جانے کا
میری روتی صورت دیکھ کر وہ کہنے لگی
جی چاہتا ہے گدگدی کر کے تجھے ہنسانے کا
مکانوں کی قیمتیں تو آسماں کو چھو رہی ہیں
اب ارادہ ہے کسی دل میں گھر بنانے کا
بیکار آدمی سے کوئی پیار نہیں کرتا اصغر
میرا بھی جی چاہتا ہے محنت کر کے کمانے کا