لہجہ اس کا پھر مہربان سا ہے
شاید آنے کو کوئی طوفان سا ہے
ہر بار یہ سوچ کر اظہار نہ کر پایا
کہ وہ ابھی کم سن و نادان سا ہے
تیری یاد سے تیری خوشبو آئے
تیرا خیال مجھے جائے امان سا ہے
زبان ماں سے نکلا اک اک حرف
ہر وقت میرے لئے نگہبان سا ہے
عقل کی نیں سنتا دل کی مانتا ہے
میرا عشق تو نافرمان سا ہے
برسوں کی جستجو کے بعد وہ ملا
اور ملا تو ایسے گویا انجان سا ہے
اشفاق کبھی اللہ کو بھی یاد کیا کرو
تیرا تو فقط رہن سہن مسلمان سا ہے