میری بادِ مخالف کو تو وہ باد صبا دے
میری صدا پہنچے اُس تلک تو مجھ کو وہ ادا دے
گزر جاۓ یوں سفینہ میرا ہر طوفاں سے
اِس موج بحر کو ساحل پر وہ جگہ دے
گُماں کو میرے تو گُمانِ غالب کی فضا دے
ہر آزمایئش میں مجھ کو صبر کی قبا دے
دُھل جاۓ یوں اپنی کدوُرت ساری کی ساری
خداوند تو یوں اپنی ابرِ رحمت جو بر سا دے