وہاں وہ ہم سے فون ملانے میں لگے ہیں
یہاں ہم اپنی تازہ غزل سنانے میں لگے ہیں
مسکرا رہے ہیں ریڈیو سے میری شاعری سن کر
ادھر ہم لوگوں کے کان کھانے میں لگے ہیں
جانتے ہیں شعر و سخن ہمارے بس کی بات نہیں
پھر بھی خود کو مصیبت میں پھنسانے میں لگے ہیں
آپ نے جسے سنتے ہی نذرانداز کر دیا
مجھے کئی دن اس غزل کو بنانے میں لگے ہیں
ان کی روتی صوت دیکھ کر یہ خیال آیا اصغر
نہ جانے کیوں ہم انہیں ہنسانے میں لگے ہیں