سینے سے پہلی بار لگایا خوشی کے ساتھ
وہ ماں تھی جس نے درد اٹھایا خوشی کے ساتھ
شب بھر وہ جاگتی رہی تنگی مجھے نہ ہو
اس نے تو مشکلوں کو نبھایا خوشی کے ساتھ
مجھ کو بنا سنوار کے رکھتی تمام دن
اپنا بھی آپ اس نے بھلایا خوشی کے ساتھ
بیمار ہوں جو میں تو وہ پرسانِ حال تھی
ہر غم کو اپنے دل سے لگایا خوشی کے ساتھ
گرتا اگر میں تھا تو اٹھاتی تھی دوڑ کر
یوں میرے لیے خود کو تھکایا خوشی کے ساتھ
اسکول کالجوں کی شروع دوڑ جب ہوئی
پیسوں کو جوڑ جوڑ پڑھایا خوشی کے ساتھ
جو کچھ بھی ہوں میں ماں کی دعاؤں سے آج ہوں
خود رہ کے غم میں مجھ کو ملایا خوشی کے ساتھ