آج پروین شاکر کی بائیسویں صلیب پڑھ کر
جانے کس رنج نے آنکھ بھر دی میری
کس قدر دکھ مشترک ہیں ہم دونوں کے
وہ رنجیدہ ہے جنم دن پر اپنے
چین مجھ میں بھی نہیں یوم پیدائش پہ
نام دیتی ہی ہر سالگرہ کو صلیب کا وہ
میں نے اسکا نام ننگی تلوار رکھا ہے
لا خدا کرتی ہے خود کو صلیب پہ اس دن
مجھے اس دن کی تیز دھار لہو رلاتی ہے
اسکی وہ صلیب با اسویں تھی بس
اور میرے زخم پچیس ہزار ہیں ابّ تک
وہ اک کونپل تھی مہک تھی اپنی ماں کی
میں بھی ہوں لیکن دل کے ایک کونے میں
دکھتی رگ ہوں غم ہوں اپنی ماں کا
چاہتی ہوں کے مجھے ہر پل ہنستا ہوا دیکھے ہر دم
اف ................ مگر یہ خاهش دل میں دبا لیتی ہے
آج پچیس کی ہوں کل پچپن کی بھی ہونگی
کل نہ یہ دور ہوگا نہ یہ عمریں ہونگی
خدا کرے میری ماں ہو اور یہ ذات ہو پچیس برس بعد بھی
آنچل ہو اسکا دنیا ہو اور اسکی خا ہشات بھی
سب کچھ ہو مگر روگ نہ ہو عمروں کا
عمریں ہوں مگر سکھ ہوں عمروں سے بڑھکر