عید آئے گی ہمیشہ تو پریشاں ہوں گے
پل خوشی کے جو دیکھیں گے تو حیراں ہوں گے
تجھ کو کھو دیں گے جو ایسے کبھی سوچا نہ تھا
لمحے خوشیوں کی بھی آئیں گے تو گراں ہو گے
منسلک تجھ سے ہی تھیں اپنی وہ خوشیاں ساری
تو نہیں لال تیرے کیسے شادماں ہوں گے
تیری یادوں نے تو ماں خوں کو بھی نچوڑ دیا
خشک آنکھوں سے بھلا اشک کیسے رواں ہوں گے
ہم کو معلوم ہے تجھ سا نہ کوئی اپنا ہے
یہ سہارے تو بس کچھ دیر کے مہماں ہوں گے
تیری یادیں تو سہارا ہے میرے جیون کا
یہ نہ ہوں گی تو شب و روز ویراں ہوں گے
اپنا جیون جو ہے سلیقے سے اس دنیا میں
تیری تربیت کے کیوں نہ قدرداں ہوں گے
اپنی جنت کو بھی چاہیں گے تیری قربت میں
ورنہ بہشت میں بھی جائیں گے تو نالاں ہوںگے
اب تو خواہش ہے تیری آغوش کی اس عالم میں
ابدی مل جائے گی تو پھر نہ جدا ہوں گے
خوش میں دیکھوں گا عمر فردوس بریں میں ماں کو
خواب میرے بھی کبھی مجھ پر مہربان ہوں گے