میری ہر ایک ریاضت کا ثمر دیتا ہے
ہاتھ اٹھتے ہی دعاؤں میں اثر دیتا ہے
خالقِ خلق وہ ہے ،ایک مجازی میرا
جب میں مانگوں وہ رہائی کا سفر دیتا ہے
خامشی کو مری الفاظ عطا کر کے نئے
مردہ کاغذ کے مسامات کو بھر دیتا ہے
مجھ کو دیتا ہے اسیری کا وہ مژدہ ایسے
میری پرواز کو پر دے کے کتر دیتا ہے
مجھ کو دکھتا ہے سپیدہ بھی سیاہی کی طرح
ایسے بینائی کو وہ حسنِ نظر دیتا ہے
میں نے مانگی ہی نہیں عزت و تکریم کبھی
اس کا احسان ہے بن مانگے ہی دھر دیتا ہے
رات بھر ہوتا ہے کتنے ہی خزانوں کا نزول
اس پہ یہ اشک مجھے صورتِ ذر دیتا ہے