میرے آقا مدینے میں بلا لیں تو قرار آئے
در اقدس پہ جا کے سر جھکا لیں تو قرار آئے
بھٹکتا پھر رہا ہوں کب سے میں گمگشتہ راہوں میں
وہ رستہ سبز گنبد کا دکھا دیں تو قرار آئے
رواں ہیں قافلے طیبہ پڑا ہوں میں یہاں تنہا
مجھے بھی ہمسفر ان کا بنا لیں تو قرار آئے
نہیں ہیں آنکھیں گر میری یہ پیر مہر علی جیسی
تصور میں ہی وہ مکھڑا دکھا دیں تو قرار آئے
یہی ہے آخری خوائش یہی دل کی تمنا ہے
یہ نعتیں جا کے خود در پر سنا لیں تو قرار آئے
کہاں پھرتا رہے زریں شکستہ دل لئے اپنا
اسے بھی کالی کملی میں چھپا لیں تو قرار آئے