Add Poetry

میرے آنگن میں عید کے دن

Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwala

پھر سے اُداسی چھائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
ہر سُو ہی یارا تنہائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

اِک طرف تو ہر کوئی مصروف ہے خوشیوں میں یارا
مگر یہاں تری یاد آئی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

کیسے منائوں میں کوئی تہوار ترے بعد ہم نشین
یہ تو صلاصل بے وافائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

ماضی کی یادوں نے میرے حال کو بگاڑ رکھا ہے
مستقبل میں یقینا تباہی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

تُو آج اَن سُنی کرکے گزر جانا میرے گھر سے
ہاہوں کی ارمانوں کی دہائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

دماغ کہتا ہے اُسے یاد نہ کر مگر دل یاد کرتا ہے
دل و دماغ میں یہی لڑائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

کیا سبب ہے جو نگاہوں سے پانی بہنے لگا آج پھر سے
یاد کی دُھول کس نے اُڑائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

شہر بھر میں شور ہے عید کا  تہوار کا یارو
مگر یہاں غموں نے دھوم مچائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

اِس احساس پے ساری عمر گزر جائے گی مسکراتے ہوئے
اُس نے کچھ زندگی بیتائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

لیے کاغذ اور قلم رات تاروں کے سنگ یارو
نہال نے اِک غزل فرمائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن

ناجانے کتنی ہی بار میں ہار گیا ہوں کہ وہ آئے گی نہال
دل نے آج پھر شرط لگائی مرے آنگن میں عید کے دن
 

Rate it:
Views: 502
31 Oct, 2012
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets