موسم کی دلفریب اداؤں کو سمجھو
اور دل کی معصوم خطاؤں کو سمجھو
میری مست حالی کو تم نہ دیکھو
میرے عشق کی انتہاؤں کو سمجھو
ہر اک سے صرف محبت ہی چاہنا
کوئی تو میری تمناؤں کو سمجھو
درودیوار پہ اک سکتہ ہے طاری
اے لوگو وقت کی صداؤں کو سمجھو
آغاز سر میں گر لٹ جائے زاد راہ
قافلے والو اپنے رہنماؤں کو سمجھو
کہتے کچھ ہیں اور چاہتے کچھ ہیں
اشفاق تم ان دلرباؤں کو سمجھو